ایک قدیم ایرانی عالم نے اپنے طلباء کو پڑھاتے ہوئے کہا:
"میں نے درخت سے شفقت سیکھی، میں نے اسے پتھر مارا
اس نے مجھ پہ پھول برسائے..
وہ شرمندگی میرے لیئے سبق بن گئی
آسائشیں بہت تھیں, پر زندگی کو ہم نے
اک دائرے میں لا کر, اِک دَار پر گُزارا
دریا دِلی کا مطلب, دریا پہ آ کے سمجھا
اِس پار تُم ہو میرے, اُس پار میں تُمھارا۔