شہر میں ایک نئے قاتل کے حسنِ سخن کے بلوے ہیں
اُس سے بچ کے رہنا شعر سنا کے بندہ مارتا ہے,
اب عُشاق کا میلہ ہو تو مجنوں کو بھی لے آنا
عاشق تو جیسا بھی ہے پر نعرہ اچھا مارتا ہے,
وہ تو علی زریون ہے بھائی اس کی گلی کا بچہ بھی
بات زرا سی غلط کہو تو مُنہ پہ مصرع مارتا ہے