ٹیلی گراف سے اقتباس
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
کہاں سے لاؤں ہنر اب اسے منانے کا
کوئی جواز نہ تھا اس کے روٹھ جانے کا
۔
محبتوں میں سزا بھی مجھے ہی ملنا تھی
کہ جرم میں نے کیا رابطے بڑھانے کا
حسنین اصغر تبسم
دفعتاً اک نظر پڑی تم پر
اور پھر عمر بھر رہی تم پر
۔
رب نے کی خوبصورتی تخلیق
اور ساری اتار دی تم پر
۔
اتنا اچھا چلن کسی کا نہیں
رشک کرتی ہے خوش روی تم پر
۔
اب تو ششدر ہیں رنگ و آرائش
کتنی جچتی ہے سادگی تم پر
۔
اور کچھ بھی نظر کو بھاتا نہیں
ختم ہے جیسے دل کشی تم پر
MZS
It was a good fun-filled day. We stole some moments to go down memory lane, relived the good and the bad, laughed our lungs out on things, had intellectual discussions, criticized pseudo feminists and loved every moment spent together! ❤️
غزل
دفعتاً اک نظر پڑی تم پر
اور پھر عمر بھر رہی تم پر
رب نے کی خوبصورتی تخلیق
اور ساری اتار دی تم پر
اتنا اچھا چلن کسی کا نہیں
ناز کرتی ہے خوش روی تم پر
اب تو ششدر ہیں رنگ و آرائش
کتنی جچتی ہے سادگی تم پر
اور کچھ بھی نظر کو بھاتا نہیں
ختم ہے جیسے دل کشی تم پر
نہیں کرتے کھیتوں میں جو جاں فشانی
نہ ہل جوتتے ہیں نہ دیتے ہیں پانی
کہ جب یاس کرتی ہے دل پر گرانی
تو کہتے ہیں حق کی ہے نا مہربانی
نہیں لیتے کچھ کام تدبیر سے وہ
صدا لڑتے رہتے ہیں تقدیر سے وہ
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
۔
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
راحت اندوری
جانے مجید امجد صاحب نے یہ شعر کس ادراک پر کہا ہوگا مگر زندگی کا سچ یہی ہے
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں کل ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
مجید امجد
تم سے ملتے تمہیں اپنا کرتے
کاش ہم بھی کبھی ایسا کرتے
-
اپنی آنکھیں اگر اپنی ہوتیں
ہم بھی کچھ اپنا نظارا کرتے
۔
سارا احوال نہ پوچھو میرا
ساری باتیں نہیں پوچھا کرتے
۔
بیدل اتنا بھی نہ سوچو خود کو
خود کو اتنا نہیں سوچا کرتے
بیدل حیدری
غزل
ان کہی بھی سنتا ہو
یار ہو تو ایسا ہو
اب وہ مسکرا دے گا
جیسے سب سمجھتا ہو
ہم مزاج ساتھی ہو
اور طویل رستا ہو
خود سے بات جاری ہو
خامشی سے جھگڑا ہو
تم مری تمنا تھے
تم مری تمنا ہو
کھڑکیاں نا کھلتی ہوں
چاندنی کا پہرا ہو
غزل
عکسِ نایاب دیکھنے والی
آنکھ ہے خواب دیکھنے والی
اپنی آنکھیں بھگوئے بیٹھی ہے
خشک تالاب دیکھنے والی
اپنی تصویر دیکھتی ہوگی
چھت سے مہتاب دیکھنے والی
کس قدر پُرسکون لگتی ہے
مجھ کو بے تاب دیکھنے والی
کاش تو دکھ بھی دیکھ سکتی مرے
اے میرے خواب دیکھنے والی
طارق جاوید