Barbra Streisand - Woman In Love 💞
I am a woman in love 💞
And I do anything
To get you into my world 🌍
And hold you within
It's a right I defend
Over and over again
We may be oceans away 🌊
You feel my love ❤️
I hear what you say 🎶
جو انسان ادھر کی بات اودھر کردے - لڑکیوں کے میسج ، فوٹو، آڈیو وڈیو دوسروں کے دے - وہ انسان بات کرنے کے بھی قابل نہیں ہے - تعلقات بنانا تو بہت دور کی بات ہے
🙌🙌
Aapi the Great
یوں تو پہلے بھی ہوئے اس سے کئی بار جدا
لیکن اب کے نظر آتے ہیں کچھ آثار جدا
گر غم سود و زیاں ہے تو ٹھہر جا اے دل
کہ اسی موڑ پہ یاروں سے ہوئے یار جدا
دو گھڑی اس سے رہوں دور تو یوں لگتا ہے
جس طرح سایۂ دیوار سے دیوار جدا
فراز
دل گیا رونق حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
ہم نے بھی وضع غم بدل ڈالی
جب سے وہ طرز التفات گئی
ترک الفت بہت بجا ناصح
لیکن اس تک اگر یہ بات گئی
نہیں ملتا مزاج دل ہم سے
غالباً دور تک یہ بات گئی
قید ہستی سے کب نجات جگرؔ
موت آئی اگر حیات گئی
اے دوست اک غریب سے اتنا خفا نہ ہو
شاید تو کل بلاۓ، تو یہ بے نوا نہ ہو
ایسی تو بد لحاظ نہ تھی وہ ستم ظریف
اے زیست تُو نے موت سےکچھ کہہ دیا نہ ہو
جس چیز سے طلوعِ قیامت مراد ہے
میرے شکستِ شیشۂ دل کی صدا نہ ہو
دیتا نہیں عدؔم میں جوانی کو بددعا
اس خوف سے کہ یہ بھی کسی کی رضا نہ ہو
پاکستانی معاشرہ جس تشدد اور انتہاپسندی کی طرف گامزن ہے اس کا اندازہ آج کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے - جس ملک کے اعلی ترین عدالتوں کے ججوں کی ذہنی حالت ایسی ہو اس کا اللہ ہی حافظ ہے - لاش کو پھانسی دینا کونسے مہذب ملک میں ہوتا ہے ؟؟ پھر تین دن تک لٹکانا
محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آگیا
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
ہم چارہ گر کو یوں ہی پہنائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر وہ پری زاد آگیا
ذکرِ شراب و حور کلامِ خدا میں دیکھ
مومن میں کیا کہوں مجھے کیا یاد آگیا
تیری خوشبو کا پتا کرتی ہے
مجھ پہ احسان ہوا کرتی ہے
ابر برسے تو عنائیت اس کی
شاخ تو صرف دعا کرتی ہے
دل کو اس راہ پہ چلنا ہی نہیں
جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے
اس نے دیکھا ہی نہیں ورنہ یہ آنکھ
دل کا احوال کہا کرتی ہے
مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے
پروین شاکر
کبھی کتابوں میں پھول رکھنا،کبھی درختوں پہ نام لکھنا
ہمیں بھی ہےیاد آج تک وہ نظر سےحرفِ سلام لکھنا
گلاب چہروں سےدل لگانا وہ چپکےچپکے نظرملانا
وہ آرزؤں کےخواب بننا وہ قصہءناتمام لکھنا
گئی رتوں میںحَسن ہمارا بس ایک ہی تومشغلہ ہے
کسی کےچہرےکو صبح لکھنا کسی کی زلفوں کی شام لکھنا
برا نہ ماننا - تم مجھے لاڈلے بچے لگتے ہو - حقیقت کی دنیا بلکل الگ اور بے رحم ہوتی ہے - لوگ ماں باپ کی طرح نہیں ہوتے - ظالم دنیا مطلب کے بغیر پیار بھی نہیں کرتا
sub-tweet
او بھائی ! میں کالی نہیں ہوں - اس کو ٹین کہتے ہیں - دھوپ میں بیٹھ بیٹھ کر یہ رنگ بنایا ہے - اور اگر کالی ہوں بھی تو کتنی بری بات ہے کسی لڑکی کو اس کے رنگ پر تعنہ دینا
رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے
سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے
جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے
زمانہ دیکھ چکا ہے پرکھ چکا ہے اسے
قتیلؔ جان سے جائے پر التجا نہ کرے🔥
*
نقاب اُٹھائے تو دُشمن سلام کر دے گا
جمالِ یار محبت کو عام کر دے گا
صنم کدہ وُہ دُعاؤں کے بعد کھولے گا
نماز پڑھ لےتو’’مرنا‘‘ حرام کر دے گا
نہ چھوڑ اِس قَدَر آزاد اَپنی آنکھوں کو
یہ کام تجھ کو کسی کا غلام کر دے گا
تمام رات فقط چاند دیکھتے رہنا
تمہارا کام کسی دِن تمام کر دے گا
سویرا ہو بھی چکا اور رات باقی ہے
ضرور دل میں ابھی کوئی بات باقی ہے
یہ لوگ کس قدر آرام سے ہیں بیٹھے ہوئے
اگرچہ ہونے کو اک واردات باقی ہے
کچھ اور زخم محبت میں بڑھ گئی ہے کسک
یہ سوچ کر کہ ابھی تو حیات باقی ہے
تمام بیڑیاں تو کاٹ ڈالی ہیں لیکن
جمال قید نفس سے نجات باقی ہے
اس طرح ستایا ہے پریشان کیا ہے
گویا کی محبّت نہیں احسان کیا ہے
سوچا تھا کہ تم دوسروں جیسے نہیں ہوگے
تم نے بھی وہی کام مری جان کیا ہے
مشکل تھا بہت میرے لئے ترکِ تعلّق
یہ کام بھی تم نے میرا آسان کیا ہے
ہر روز سجاتے ہیں تیرے ہجر میں غنچے
آنکھوں کو تیری یاد میں گلدان کیا ہے
اگر غفلت سے باز آیا ، جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
مرے آغاز الفت میں ہم افسوس
اسے بھی رہ گئی حسرت جفا کی
کہا اس بت سے، 'مرتا ہوں'، تو مومن
کہا، 'میں کیا کروں، مرضی خدا کی'
ہے مشق سخن جاری چکّی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
خود عشق کی گستاخی سب تجھ کو سکھا لے گی
اے حُسن حیا پر ور شوخی بھی شرارت بھی
اے شوق کی بے باکی وہ کیا تری خواہش تھی
جس پر انہیں غصّہ ہے' انکار بھی 'حیرت بھی
ہائےاک شخص جسےہم نے بھلایابھی نہیں
یاد آنےکی طرح یاد وہ آیا بھی نہیں
اے محبت یہ ستم کیاکہ جدا ہوں خود سے
کوئی ایسا مرے نزدیک تو آیابھی نہیں
یاہمیں زلف کےسائےہی میں نیند آتی تھی
یا میسر کسی دیوار کا سایابھی نہیں
بارہا دل تری قربت سےدھڑک اٹھاہے
گوابھی وقت محبت میں وہ آیابھی نہیں
نہ کوئی آنکھ ملتی ہے نہ کوئی جام ملتا ہے
ابھی تو مے کدہ ہم کو برائے نام ملتا ہے
شکایت کیوں کریں ہم اُس پری وَش کے نہ ملنے کی
برنگِ صبح ملتا ہے، بہ شکلِ شام ملتا ہے
خُدا کا شکر کر تہمت اگر اُس آنکھ کی آئے
بڑی مشکل سے ایسا قیمتی الزام ملتا ہے
خیال و خواب ہُوا برگ و بار کا موسم
بچھڑ گیا تری صُورت، بہار کا موسم
کئی رُتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم
پیام آیا ہے پھر ایک سروقامت کا
مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم
وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے
مرے بدن کو مِلا ہے چنار کا موسم
جو سر بھی کشیدہ ہو اسے دار کرے ہے
اغیار تو کرتے تھے سو اب یار کرے ہے
وہ کون ستمگر تھے کہ یاد آنے لگے ہیں
تو کیسا مسیحا ہے کہ بیمار کرے ہے
ہے ترکِ تعلق ہی مداوائے غمِ جاں
پر ترکِ تعلق تو بہت خوار کرے ہے
تو لاکھ فراز اپنی شکستوں کو چھپائے
یہ چپ تو ترے کرب کا اظہار کرے ہے
نہ جواب دے نہ سوال کر، مجھے چھوڑ دے میرے حال پر
تجھے کیا ملے گا؟ تُو ہی بتا، مجھے الجھنوں میں یوں ڈال کر
تُو رہے تو کیا ؟ نہ رہے تو کیا ؟ مجھے اب تُو کچھ بھی کہے تو کیا؟
نہیں اب مجھے سروکار ہی ، تُو جئے کہ اب تُو وصال کر
I'm carried away
I turn to you
You turn away
You're looking at someone else
And here am I
Loving you more and more
We've got an open door, my love
Oh let it be just a state of mind
And suddenly you appear
I'm carried away
I'm carried away
شہرکےدُکاں دارو،کاروبارِاُلفت میں،سُود کیا،زِیاں کیا ہے،تُم نہ جان پاؤ گے
زخم کیسے پَھلتے ہیں،داغ کیسے جَلتے ہیں،درد کیسے ہوتا ہے،کوئی کیسے روتا ہے
اشک کیا ہیں نالے کیا، دشت کیا ہیں چھالے کیا،آہ کیا فغاں کیا ہے،تُم نہ جان پاؤ گے
خاموش ہوکیوں دادِجفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہوتوقاتل کودعاکیوں نہیں دیتے
اک یہ بھی تواندازِعلاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو،درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
منصف ہو اگرتم توکب انصاف کروگے
مجرم ہیں اگرہم توسزا کیوں نہیں دیتے
کیابیت گئی اب کے فرازاہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھکو صدا کیوں نہیں دیتے
اس کا جلوہ جو کوئی دیکھنےوالاہوتا
وعدۂ دید قیامت پہ نہ ٹالا ہوتا
کیسےخوش رنگ ہیں زخم جگر و داغ جگر
ہم دکھاتے جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
دل نہ سنبھلا تھا اگر دیکھ کےجلوہ اس کا
تو نے اے درد جگر اٹھ کےسنبھالا ہوتا
تم نے ارمان ہمارا نہ نکالا نہ سہی
اپنے خنجر کا تو ارمان نکالا ہوتا
کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے
وہ خارخار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں سے
میں کیسے بات کروں اور کہاں سےلاؤں اسے
جو ہمسفر سرِمنزل بچھڑرہا ہے فراز
عجب نہیں کہ اگر یاد بھی نہ آؤں اسے
شکل اس کی تھی دلبروں جيسی
خو تھي ليکن ستمگروں جيسی
اس کے لب تھے سکوت کے دريا
اس کی آنکھيں سخنوروں جيسی
کون ديکھے گا اب صليبوں پر
صورتيں وہ پيمبروں جيسی
ميری دنيا کے بادشاہوں کی
عادتيں ہيں گداگروں جيسی
رخ پہ صحرا ہيں پياس کے محسن
دل ميں لہريں سمندروں جيسی
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
دل میں نہ ہوجرأت تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
کچھ لوگ یوں ہی شہر میں ہم سےبھی خفاہیں
ہرایک سےاپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
دیکھا ہےجسےمیں نےکوئی اور تھاشاید
وہ کون تھا جس سےتری صورت نہیں ملتی
ہنستےہوئےچہروں سےہےبازارکی زینت
رونےکی یہاں ویسےبھی فرصت نہیں ملتی
دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے
اُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے
وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے
یہ عالم شوق کا دیکھانہ جائے
وہ بت ہے یا خدا دیکھانہ جائے
یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا
کہ تیرا دیکھنا دیکھانہ جائے
ہمیشہ کے لئے مجھ سے بچھڑجا
یہ منظر بارہا دیکھانہ جائے
غلط ہے جو سنا،پرآزما کر
تجھے اے بے وفا,دیکھانہ جائے
فراز اپنے سوا ہے کون تیرا
تجھے تجھ سے جدا دیکھا نہ جائے
بیخود کیئے دیتے ہیں انداز حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں اے جلوہء جانانہ
کیوں آنکھ مِلائی تھی کیوں آگ لگائی تھی
اب رُخ کوچھپا بیٹھے کرکے مجھے دیوانہ
جی چاہتا ہے تحفے میں دیدوں انہیں آنکھیں
درشن کا تو درشن ہو، نذرانے کا نذرانہ
دوست بھی ملتےہیں محفل بھی جمی رہتی ہے
تونہیں ہوتا توہرشےمیں کمی رہتی ہے
اب کےجانےکانہیں موسم گریہ شاید
مسکرائیں بھی توآنکھوں میں نمی رہتی ہے
عشق عمروں کی مسافت ہےکسےکیامعلوم؟
کب تلک ہمسفری ہمقدمی رہتی ہے
کچھ دلوں میں کبھی کھلتےنہیں چاہت کےگلاب
کچھ جزیروں پہ سدادھند جمی رہتی ہے
بادباں کھُلنے سے پہلے کا اشارا دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارا دیکھنا
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اُس سے مگر
جاتے جاتے اُس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
کس شباہت کو لیے آیا ہے دروازے پہ چاند
اے شبِ ہجراں! ذرا اپنا ستارہ دیکھنا
(پروین شاکر)
دل کےمعاملات میں سُودو زیاں کی بات
ایسی ہےجیسےموسمِ گل میں خزاں کی بات
زاہد! ترا کلام بھی ہےبااثر،مگر
پیرِمغاں کی بات ہےپیرِمغاں کی بات
اک زخم تھا کہ وقت کےہاتھوں سے بھرگیا
کیا پوچھتےہیں آپ کسی مہرباں کی بات
باتیں اِدھراُدھر کی سُنا کرجہاں کو
وہ حذف کرگئےہیں عدمؔ درمیاں کی بات
ECLIPSE OF THE HEART
Once upon a time I was falling in love
But now I'm only falling apart
There's nothing I can do
A total eclipse of the heart
Once upon a time there was light in my life
But now there's only love in the dark
Nothing I can say .....
زندگی کونہ بنا لیں وہ سزا میرےبعد
حوصلہ دیناانہیں میرےخدا میرےبعد
ہاتھ اٹھاتےہوئےانکو نہ کوئی دیکھےگا
کس کے آنے کی کریں گےوہ دعامیرےبعد
کس قدر غم ہے انہیں مجھ سے بچھڑ جانےکا
ہو گئےوہ بھی زمانےمیں جدامیرےبعد
وہ جو کہتا تھا کہ ناصرؔ کےلئےجیتا ہوں
اسکا کیاجانئے کیاحال ہوامیرے بعد
جو آئینے سے تیری جلوہ سامانی نہیں جاتی
کسی بھی دیکھنے والے کی حیرانی نہیں جاتی
کبھی اک بار ہولے سے پکارا تھا مجھے تم نے
کسی کی مجھ سے اب آواز پہچانی نہیں جاتی
گوارا ہی نہ تھی جن کو جدائی میری دم بھر کی
انہیں سے آج میری شکل پہچانی نہیں جاتی
گم صم ھوا آواز کا دریا تھا جو اک شخص
پتھر بھی نھیں اب وہ،ستارہ تھا جو اک شخص
ھاتھوں میں چھپائے ھوئے پھرتا ھے کئی زخم
شیشے کے کھلونوں سے بہلتا تھا جو اک شخص
منکر ھے وھی اب میری پہچان کا"محسن"
اکثر مجھے خط خون سے لکھتا تھا جو اک شخص
غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں
آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر
کیا علم تھا پھسلنے لگیں گے میرے قدم
میں تو چلا تھا راہ کو ہموار دیکھ کر
ہر کوئی پارسائی کی عمدہ مثال تھا
دل خوش ہوا ہے ایک گنہگار دیکھ کر
بے حسی بھی 'وقت مدد' دیکھ لی عدؔیم
کترا گیا ہے یار کو بھی یار دیکھ کر
اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا
میں نہیں تو کوئی تجھ کو دوسرا مل جائے گا
کس طرح روکو گے اشکوں کو پسِ دیوار چشم
یہ تو پانی ہے ، اسے تو راستہ مل جائے گا
تیز ہوتی جا رہی ہیں دھڑکنیں ایسے عدیم
جیسے اگلے موڑ پر وہ بے وفا مل جائے گا
تو کوئی خواب نہیں جس سے کنارا کر لیں
کیوں نہ پہلے سے تعلق پہ گزارا کر لیں
ہم نے تاخیر سے سیکھے ہیں محبت کے اصول
ہم پہ لازم ہے، ترا عشق دوبارہ کر لیں
یہ بھی ممکن ہے تجھے دل سے بھلا دیں، ہم لوگ
یہ بھی ممکن ہے تجھے جان سے پیارا کر لیں
شب کی بیداریاں نہیں اچھی
اتنی مے خواریاں نہیں اچھی
وہ کہیں کبریا نہ بن جائے
ناز برداریاں نہیں اچھی
ہاتھ سے کھو نہ بیٹھنا اس کو
اتنی خودداریاں نہیں اچھی 🔥
بام پر آنے لگے وہ سامنا ہونے لگا
اب تو اظہارِ محبت برملا ہونے لگا
کیا کہا میں نے جو ناحق تم خفا ہونے لگے
کچھ سنا بھی یا کہ یونہی فیصلہ ہونے لگا
کیا ہوا حسرت وہ تیرا ادّعائے ضبطِ غم
دو ہی دن میں رنجِ فرقت کا گلا ہونے لگا
کسی کا نام لو، بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
بس اب سوجاؤ نیند آنکھوں میں ہے، کل پھر سنائیں گے
ذرا سی رہ گئی ہے رات، افسانے بہت سے ہیں
تمہیں کس نے بلایا، مے کشوں سے یہ نہ کہہ ساقی
طبیعت مل گئی ہے ورنہ مے خانے بہت سے ہیں
ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
میری جان چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے۔
بھرے ہیں تجھ میں لاکھوں ہنر اے مجمہء خوبی
ملاقاتی تیرا گویا بھری محفل سے ملتا ہے
ّ
غضب ہے "داغ" کہ دل سے تمہارا دل نہیں ملتا
تمہارا چاند سا چہرا ماہ_ کامل سے ملتا ہے
گرمِ تلاش و جُستجو اب ہے تِری نظر کہاں ؟
خُون ہے کچھ جما ہُوا، قلْب کہاں، جِگر کہاں؟
ہے یہ طرِیقِ عاشقی، چاہیئے اِس میں بیخودی
اِس میں چُناں چُنیں کہاں، اِس میں اگر مگرکہاں؟
زُلف تھی جو بِکھر گئی، رُخ تھا کہ جو نِکھر گیا
ہائے وہ شام اب کہاں، ہائے وہ اب سحرکہاں ؟
اضغر گونڈوی
@sincereman5
@FarooquiJameel
ایک جگہ کہتا ہے - ہم کو سب کبر ( خبر ) ہے - یعنی ' خ ' بولنے میں دشواری - مگر افغانستان اور خون بولنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے - اسی طرح پھ اور پ میں بھی تسلسل نہیں ہے - دھمکی اصلی ہوسکتی ہے مگر بندا ایکٹر ہے - جو اپنے آپ کو پٹھان ثابت کرنے کے لئے بھونڈی ایکٹنگ کر رہا ہے
انسان کے لئے اس سے زیادہ تکلیف دہ اور کوئی بات نہیں ہوتی کہ اس کو کسی کم ظرف انسان سے کام پڑ جائے - اور سے بھی زیادہ اگر ایسے حالات ہو جائیں کہ اس سے معافی مانگنی پڑ جاہے
تمہیں اس سے سے محبت ہے تو ہمت کیوں نہیں کرتے
اس کے در پہ رقصِ وحشت کیوں نہیں کرتے
علاج اپنا کرواتے پھر رہے ہو جانے کس کس سے
محبت کر کے دیکھو نا، محبت کیوں نہیں کرتے